بے پردہ اس کا چہرۂ پر نور تو ہوا
کچھ دیر شعبدہ سا سر طور تو ہوا
اچھا کیا کہ میں نے کیا ترک آرزو
بے صبر دل کو صبر کا مقدور تو ہوا
گو اس میں اب نہیں ہیں لڑکپن کی شوخیاں
لیکن شباب آنے سے مغرور تو ہوا
اب اور التفات سے مقصد ہے کیا ترا
بس اے نگاہ مست کہ میں چور تو ہوا
تم نے اگر سنا نہیں یہ اور بات ہے
افسانہ میرے عشق کا مشہور تو ہوا
سنتا ہوں حسن مائل مہر و وفا ہے اب
اے اختیار عشق وہ مجبور تو ہوا
شاکرؔ کو ہے نصیب سے کس بات کا گلا
دنیائے شاعری میں وہ مشہور تو ہوا
غزل
بے پردہ اس کا چہرۂ پر نور تو ہوا
شاکر کلکتوی