EN हिंदी
بے نیازی کے سلسلے میں ہوں | شیح شیری
be-niyazi ke silsile mein hun

غزل

بے نیازی کے سلسلے میں ہوں

پونم یادو

;

بے نیازی کے سلسلے میں ہوں
میں کہاں اب ترے نشے میں ہوں

ہجر تیرا مجھے ستاتا ہے
اور باقی تو بس مزے میں ہوں

ڈھونڈھ مت ان اداس آنکھوں میں
غور کر تیرے قہقہے میں ہوں

وہ مجھے اب بھی چاہتا ہوگا
میں ابھی تک مغالطے میں ہوں

ہر طرف محفلیں خیالوں کی
عشق کے شاہی محکمے میں ہوں

توڑ کر ہی نکال لے کوئی
قید میں اپنے دائرے میں ہوں

اوس کو منزل بھی مل گئی اپنی
اور میں ہوں کہ راستے میں ہوں