بے نیازی کے سلسلے میں ہوں
میں کہاں اب ترے نشے میں ہوں
ہجر تیرا مجھے ستاتا ہے
اور باقی تو بس مزے میں ہوں
ڈھونڈھ مت ان اداس آنکھوں میں
غور کر تیرے قہقہے میں ہوں
وہ مجھے اب بھی چاہتا ہوگا
میں ابھی تک مغالطے میں ہوں
ہر طرف محفلیں خیالوں کی
عشق کے شاہی محکمے میں ہوں
توڑ کر ہی نکال لے کوئی
قید میں اپنے دائرے میں ہوں
اوس کو منزل بھی مل گئی اپنی
اور میں ہوں کہ راستے میں ہوں

غزل
بے نیازی کے سلسلے میں ہوں
پونم یادو