بے نیاز بہار سا کیوں ہے
دل کو زخموں سے پیار سا کیوں ہے
وہ خفا ہیں کہ ہم غریبوں کو
غم پہ کچھ اختیار سا کیوں ہے
میری آنکھوں کے خواب تو غم ہیں
وہ مگر بے قرار سا کیوں ہے
عکس اس میں تھا کس کے چہرے کا
آئنہ سنگسار سا کیوں ہے
آہٹیں پاس آ کے دور ہوئیں
ہم کو پھر انتظار سا کیوں ہے
کیا کوئی صندلی مہک سی اڑی
دل مرا پر خمار سا کیوں ہے
زندگی تلخ ہے بہت انجمؔ
پھر بھی ظالم سے پیار سا کیوں ہے
غزل
بے نیاز بہار سا کیوں ہے
غیاث انجم