EN हिंदी
بے نشان قدموں کی کہکشاں پکڑتے ہیں | شیح شیری
be-nishan qadmon ki kahkashan pakaDte hain

غزل

بے نشان قدموں کی کہکشاں پکڑتے ہیں

اصغر مہدی ہوش

;

بے نشان قدموں کی کہکشاں پکڑتے ہیں
ہم بھی کیا دوانے ہیں آسماں پکڑتے ہیں

کوئی دل کو بھیجے ہے روشنی کی تحریریں
روزنوں میں کرنوں کی ڈوریاں پکڑتے ہیں

ذہن اس کے پیکر میں ڈوب ڈوب جاتا ہے
کھیلتے ہوئے بچے جب دھواں پکڑتے ہیں

آپ گہرے پانی کا اک بڑا سمندر ہیں
ہم تو ایک مانجھی ہیں مچھلیاں پکڑتے ہیں

اب کہاں اچھلتے ہیں دیکھ کر جہازوں کو
لیکن آج بھی بچے تتلیاں پکڑتے ہیں

گھر کے سارے دروازے جاگتے ہیں راتوں کو
بند بند کمروں کی چوریاں پکڑتے ہیں

یہ بھی اک بڑا فن ہے آج کل کے لوگوں میں
شعر کہہ نہیں سکتے خامیاں پکڑتے ہیں