بے نوائی نے مری حد سے گزر جانے دیا
وہ جو مجھ سے چاہتا تھا میں نے کر جانے دیا
پھر کریدا اور جی بھر کر نمک پاشی بھی کی
پہلے اس نے میرے دل کے زخم بھر جانے دیا
روک کر رستہ بتا دیتے کہ خود کو جان لے
تم نے کیسے اس کو خود سے بے خبر جانے دیا
اب خطا کاری سے کوئی روکنے والا نہیں
روح کی زندہ صدا کو میں نے مر جانے دیا
جان کی بازی لگا کر بھی بچا لاتے اسے
تم نے گہرے پانیوں میں کیوں اتر جانے دیا
کیسی آرائش ہوئی بے شانہ و بے آئنہ
گیسوؤں کو اس نے بکھرا کر سنور جانے دیا
فیصلہ ٹلتا رہا شنوائی کی تاخیر سے
خود عدالت نے گواہوں کو مکر جانے دیا
وہ تو آیا تھا جلا کر اپنی ساری کشتیاں
تم نے کس دل سے اسے با چشم تر جانے دیا
غزل
بے نوائی نے مری حد سے گزر جانے دیا
ارمان نجمی