بے نام دیاروں کا سفر کیسا لگا ہے
اب لوٹ کے آئے ہو تو گھر کیسا لگا ہے
کیسا تھا وہاں گرم دوپہروں کا جھلسنا
برسات رتوں کا یہ نگر کیسا لگا ہے
دن میں بھی دہل جاتا ہوں آباد گھروں سے
سایا سا مرے ساتھ یہ ڈر کیسا لگا ہے
ہونٹوں پہ لرزتی ہوئی خاموش صدا کا
آنکھوں کے دریچوں سے گزر کیسا لگا ہے
آنگن میں لگایا تھا شجر چاؤ سے میں نے
پھلنے پہ جو آیا تو ثمر کیسا لگا ہے

غزل
بے نام دیاروں کا سفر کیسا لگا ہے
شفیق سلیمی