EN हिंदी
بے نام دیاروں کا سفر کیسا لگا ہے | شیح شیری
be-nam dayaron ka safar kaisa laga hai

غزل

بے نام دیاروں کا سفر کیسا لگا ہے

شفیق سلیمی

;

بے نام دیاروں کا سفر کیسا لگا ہے
اب لوٹ کے آئے ہو تو گھر کیسا لگا ہے

کیسا تھا وہاں گرم دوپہروں کا جھلسنا
برسات رتوں کا یہ نگر کیسا لگا ہے

دن میں بھی دہل جاتا ہوں آباد گھروں سے
سایا سا مرے ساتھ یہ ڈر کیسا لگا ہے

ہونٹوں پہ لرزتی ہوئی خاموش صدا کا
آنکھوں کے دریچوں سے گزر کیسا لگا ہے

آنگن میں لگایا تھا شجر چاؤ سے میں نے
پھلنے پہ جو آیا تو ثمر کیسا لگا ہے