بے مروت ہیں تو واپس ہی اٹھا لے شب و روز
مجھ کو بھاتے نہیں یہ تیرے نرالے شب و روز
ایک امید کا تارہ ہے سر بام ابھی
اس کی کرنوں سے ہی ہم نے ہیں اجالے شب و روز
جو تری یاد کے سائے میں گزارے ہم نے
ہیں وہی زیست کے انمول حوالے شب و روز
دشت سے خاک اٹھا لایا تھا اجداد کی میں
گھر میں رکھے تو ہوئے چاند کے ہالے شب و روز
دست خونیں نہ کبھی وقت اٹھائے تجھ پر
حکم لمحوں پہ چلا ڈھال بنا لے شب و روز
اپنے دن رات سے ممکن ہے کہاں کوئی فرار
دشت وحشت میں اتر اور سجا لے شب و روز
غزل
بے مروت ہیں تو واپس ہی اٹھا لے شب و روز
ذوالفقار نقوی