بے مہریٔ قضا کے ستائے ہوئے ہیں ہم
الزام زندگی کا اٹھائے ہوئے ہیں ہم
حسن سلوک یار کا اعجاز کیا کہیں
سو داغ ایک دل پہ اٹھائے ہوئے ہیں ہم
اب کس سے لے قصاص زمانے میں منصفی
اپنے لہو میں آپ نہائے ہوئے ہیں ہم
پتھر کے اک صنم کو بہ صد ناز و طمطراق
شیشے کے پیرہن میں چھپائے ہوئے ہیں ہم
جھکتی ہیں کج کلاہوں کی پیشانیاں جہاں
اس آشیاں میں سر کو جھکائے ہوئے ہیں ہم
حیراں ہیں وہ کہ ایسے ہوس ناک دور میں
تہذیب عشق اب بھی نبھائے ہوئے ہیں ہم
اشکوں کے گھپ گھروں میں تھا آسیب کا خطر
آنکھوں کے دیپ یوں نہ جلائے ہوئے ہیں
اس ٹوٹتے بدن میں وہ ٹھہراؤ ہے سحر
جنموں سے بار ہجر اٹھائے ہوئے ہیں ہم
ہستی کے کارخانۂ آہن میں اے سحرؔ
زنجیر جاں کو غم سے لگائے ہوئے ہیں ہم

غزل
بے مہریٔ قضا کے ستائے ہوئے ہیں ہم
شمشاد سحر