بے مزہ تھی جو بد مزہ کر دی
زندگی آپ نے سزا کر دی
ایک پردہ تھا دوستی کیا تھی
باتوں باتوں میں ناروا کر دی
تو نے وعدہ کیا تھا جس دن کا
دل نے اس شام انتہا کر دی
تیرے حصے کا انتظار کیا
پھر نماز وفا ادا کر دی
دیکھ کر بھی مجھے نہیں دیکھا
گویا رشتے کی ابتدا کر دی
تیرے وعدے تری امانت ہیں
پر وہ تصویر جو چھپا کر دی
آج بھی شوق ہے جلانے کا
تو نے تحریر بھی جلا کر دی
غزل
بے مزہ تھی جو بد مزہ کر دی
خالد ملک ساحلؔ