بے مکاں تاریک دھڑکن گن گیا
چیختا چنگھاڑتا انجن گیا!
رو رہا تھا شام کو سورج لہو
چلنے والا تھک گیا لیکن گیا
قطرہ قطرہ رات سوکھی دشت میں
ریزہ ریزہ پتھروں سے دن گیا
شہر میں پتوں نے دستک چھیڑ دی
اے ہوا کیا جنگلوں کا سن گیا
راستوں کا جال پھیلا رہ گیا
اک بگولا سا اٹھا اور جن گیا
بعد میں تھا بوجھ پیپر ویٹ کا
پڑھ لیا مجھ کو لگا کر پن گیا!
بے حسی تھی اور نقش اندمال
زخم کا زندہ تعلق چھن گیا
غزل
بے مکاں تاریک دھڑکن گن گیا
مہدی جعفر