بے مکاں میرے خواب ہونے لگے
رت جگے بھی عذاب ہونے لگے
حسن کی محفلوں کا وزن بڑھا
جب سے ہم باریاب ہونے لگے
ہے عجب لمس ان کے ہاتھوں کا
سنگ ریزے گلاب ہونے لگے
اب پگھلنے لگے ہیں پتھر بھی
رابطے کامیاب ہونے لگے
میرا سچ بولنا قیامت تھا
کیسے کیسے عتاب ہونے لگے
ذکر تھا ان کی بے وفائی کا
آپ کیوں آب آب ہونے لگے
پر سکوں ہجر ساعتیں دیکھوں
وصل لمحے عذاب ہونے لگے
ہم بھی کہنے لگے ہیں رات کو رات
ہم بھی گویا خراب ہونے لگے
کچھ زباں سے نکل گیا تھا یوں ہی
کیوں خفا آں جناب ہونے لگے
اے ذکیؔ مجھ کو مل گئی معراج
میرے شعر انتخاب ہونے لگے
غزل
بے مکاں میرے خواب ہونے لگے
ذکی طارق