بے محل ہے گفتگو ہیں بے اثر اشعار ابھی
زندگی بے لطف ہے نا پختہ ہیں افکار ابھی
پوچھتے رہتے ہیں غیروں سے ابھی تک میرا حال
آپ تک پہنچے نہیں شاید مرے اشعار ابھی
زندگی گزری ابھی اس آگ کے گرداب میں
دل سے کیوں جانے لگی حرص لب و رخسار ابھی
ہاں یہ سچ ہے سر بسر کھوئے گئے ہیں عقل و ہوش
دل میں دھڑکن ہے ابھی دل تو ہے خود مختار ابھی
کیوں نہ کر لوں اور ابھی سیر بہار لالہ زار
میں نہیں محسوس کرتا ہوں نحیف و زار ابھی
غزل
بے محل ہے گفتگو ہیں بے اثر اشعار ابھی
حبیب تنویر