EN हिंदी
بے خودی میں ہے نہ وہ پی کر سنبھل جانے میں ہے | شیح شیری
be-KHudi mein hai na wo pi kar sambhal jaane mein hai

غزل

بے خودی میں ہے نہ وہ پی کر سنبھل جانے میں ہے

چرخ چنیوٹی

;

بے خودی میں ہے نہ وہ پی کر سنبھل جانے میں ہے
لطف پائے یار پر جو لغزشیں کھانے میں ہے

تیرے وعدے تیری یادیں تیرے نغمے تیرے خواب
حسن سے بھرپور دولت میرے کاشانے میں ہے

ساغر و مینا میں لہراتی ہے ہر موج شراب
اک جوانی کا تلاطم آج میخانے میں ہے

بزم دنیا میں ہیں حسن و عشق یوں جلوہ نما
روشنی ہے شمع میں تو سوز پروانے میں ہے

مے کی اک اک بوند سے طوفان مستی ہے عیاں
کس کی مے بار انکھڑیوں کا عکس پیمانے میں ہے

نور کی بارش ابھی ہونے دے تھوڑی دیر اور
اک ذرا سی دیر ہی تو رات ڈھل جانے میں ہے

لاکھ فطرت نے دکھائی برق کی چشمک زنی
اس میں وہ شوخی کہاں جو تیرے شرمانے میں ہے

جان بھی دل بھی جگر بھی آرزوئے وصل بھی
ان کے پیش اپنا سبھی کچھ آج نذرانے میں ہے

مے ابھر کر جام میں انگڑائیاں لینے لگی
کیسا مد و جزر ساقی تیرے میخانے میں ہے

چرخؔ میں نا آشنا ہوں ہجر کے ماحول سے
وصل کا رنگین پہلو میرے افسانے میں ہے