EN हिंदी
بے خودی ہے نہ ہوشیاری ہے | شیح شیری
be-KHudi hai na hoshiyari hai

غزل

بے خودی ہے نہ ہوشیاری ہے

شکیل بدایونی

;

بے خودی ہے نہ ہوشیاری ہے
بادہ خواری سی بادہ خواری ہے

حسن مصروف پردہ داری ہے
جانے اب کس نظر کی باری ہے

تو نے دیکھی تو ہوگی اے ناصح
وہ محبت جو اختیاری ہے

کم نہیں شورش نفس لیکن
زندگی پر جمود طاری ہے

غم الفت تو دل سے ہار چکا
اب غم زندگی کی باری ہے

جس چمن میں کبھی نہ آئے بہار
اس چمن کی خزاں بھی پیاری ہے

ہائے وہ بادہ کش کہ جس نے شکیلؔ
زندگی بے پئے گزاری ہے