بے خودی ہے نہ ہوشیاری ہے
بادہ خواری سی بادہ خواری ہے
حسن مصروف پردہ داری ہے
جانے اب کس نظر کی باری ہے
تو نے دیکھی تو ہوگی اے ناصح
وہ محبت جو اختیاری ہے
کم نہیں شورش نفس لیکن
زندگی پر جمود طاری ہے
غم الفت تو دل سے ہار چکا
اب غم زندگی کی باری ہے
جس چمن میں کبھی نہ آئے بہار
اس چمن کی خزاں بھی پیاری ہے
ہائے وہ بادہ کش کہ جس نے شکیلؔ
زندگی بے پئے گزاری ہے
غزل
بے خودی ہے نہ ہوشیاری ہے
شکیل بدایونی