بے خود ایسا کیا خوف شب تنہائی نے
صبح سے شمع جلا دی ترے سودائی نے
حسب منشا دل پر شوق کی باتوں کا جواب
دے دیا شرم میں ڈوبی ہوئی انگڑائی نے
ہو کا عالم ہوا اس سمت کو اڑنے لگی خاک
جس طرف غور سے دیکھا ترے سودائی نے
قتل پر میرے بہائے نہ کسی نے آنسو
داد قاتل کو دی اک ایک تماشائی نے
پوچھنے والے بھری بزم میں قاتل کو نہ پوچھ
نام تیرا ہی اگر لے دیا سودائی نے
مانگتا ہوں در و دیوار سے باتوں کا جواب
ایسا دیوانہ کیا ہے غم تنہائی نے
ہجر کی راتوں میں منظرؔ مرے کام آ آ کے
لے لیا مول چراغ شب تنہائی نے
غزل
بے خود ایسا کیا خوف شب تنہائی نے
منظر لکھنوی