بے خبر ہوتے ہوئے بھی با خبر لگتے ہو تم
دور رہ کر بھی مجھے نزدیک تر لگتے ہو تم
کیوں نہ آؤں سج سنور کر میں تمہارے سامنے
خوش ادا لگتے ہو مجھ کو خوش نظر لگتے ہو تم
تم نے لمس معتبر سے بخش دی وہ روشنی
مجھ کو میری آرزوؤں کی سحر لگتے ہو تم
جس کے سائے میں اماں ملتی ہے میری زیست کو
مجھ کو جلتی دھوپ میں ایسا شجر لگتے ہو تم
کیوں تمہارے ساتھ چلنے پر نہ آمادہ ہو دل
خوشبوئے احساس میرے ہم سفر لگتے ہو تم
نازؔ تم پر ناز کرتی ہے محبت کی قسم
زندگی بھر کی دعاؤں کا اثر لگتے ہو تم
غزل
بے خبر ہوتے ہوئے بھی با خبر لگتے ہو تم
ناز بٹ