بے خبر حیات تھا غم نے مجھے جگا دیا
زیست کا راز کھول کر موت کا آسرا دیا
زلف سیہ کی یاد میں خوف پس فنا کہاں
طول شب فراق نے صبح کا غم مٹا دیا
موت کہیں نہیں ہمیں اور کہاں نہیں ہے موت
کس نے بنا کے سخت جاں سینے میں دل بنا دیا
تلخ تو تھا غم حیات اتنا نہ تلخ تھا مگر
پوچھ کے تم نے حال دل زہر مجھے پلا دیا
آ کے پلٹ گیا کوئی اور نہ ہمیں خبر ہوئی
کیف امید دید نے شام ہی سے سلا دیا
غم کدۂ حیات میں آہ میں وہ چراغ ہوں
صبح ہوئی جلا دیا شام ہوئی بجھا دیا
ہائے وہ درد کیا ہوا جس سے تھی زندگی مری
خود ہی مٹا نہیں ہے دل دل نے مجھے مٹا دیا
حیف کہ بے کسی کی شرم آج جگرؔ نہ رہ سکی
اجڑے ہوئے مزار پر کس نے دیا جلا دیا
غزل
بے خبر حیات تھا غم نے مجھے جگا دیا
جگر بریلوی