EN हिंदी
بے خبر دنیا کو رہنے دو خبر کرتے ہو کیوں | شیح شیری
be-KHabar duniya ko rahne do KHabar karte ho kyun

غزل

بے خبر دنیا کو رہنے دو خبر کرتے ہو کیوں

اقبال ساجد

;

بے خبر دنیا کو رہنے دو خبر کرتے ہو کیوں
دوستو میرے دکھوں کو مشتہر کرتے ہو کیوں

کوئی دروازہ نہ کھولے گا صدائے درد پر
بستیوں میں شور و غل شام و سحر کرتے ہو کیوں

مجھ سے غربت مول لے کر کون گھر لے جائے گا
تم مجھے رسوا سر بازار زر کرتے ہو کیوں

آنکھ کے اندھوں کو کیوں دکھلاتے ہو پرواز حرف
کاغذوں پہ اب تماشائے ہنر کرتے ہو کیوں

تذکرہ لکھتے ہو کیا میری شکست و ریخت کا
لفظ کی بستی میں معنی کو کھنڈر کرتے ہو کیوں

دوستو! بینائی بخشے گی تمہیں ان کی اڑان
پنچھیوں کو چھوڑ دو بے بال و پر کرتے ہو کیوں

لفظ اگر بوتے تو پھر فصل معانی کاٹتے
دوستو! اب شکوۂ اہل ہنر کرتے ہو کیوں

ظالموں کے ساتھ مل جاؤ رہوگے عیش میں
عمر ساجدؔ کسمپرسی میں بسر کرتے ہو کیوں