بے کسی میں اثر یگانہ ہے
دل بھی اس کا نہیں بیگانہ ہے
غرض آئینہ داری دل سے
تیرا جلوہ تجھے دکھانا ہے
مثل نقش قدم میں جب تئیں ہوں
آنکھیں ہیں اور یہ آستانا ہے
یہی تار نفس کی آمد و شد
جامۂ تن کا تانا بانا ہے
گلے ملنا نہ گو کہ ہاتھ لگے
لیک منظور دل ملانا ہے
نام عنقا نشان تیرے کا
جوں نگیں دل میں آشیانا ہے
دوست دشمن سبھی ہوئے ہیں تیرے
کیا برائی کا اب زمانا ہے
دل گم گشتہ کو میں ڈھونڈوں کہاں
نہ کہیں ٹھور نے ٹھکانا ہے
ہے دیوانہ بہ کار خود ہشیار
یہ نہ سمجھو اثرؔ دیوانا ہے
غزل
بے کسی میں اثر یگانہ ہے
میر اثر