EN हिंदी
بے کراں دریا ہوں غم کا اور طغیانی میں ہوں | شیح شیری
be-karan dariya hun gham ka aur tughyani mein hun

غزل

بے کراں دریا ہوں غم کا اور طغیانی میں ہوں

حمید نسیم

;

بے کراں دریا ہوں غم کا اور طغیانی میں ہوں
سب حدیں ہیں پھر بھی قائم کب سے حیرانی میں ہوں

شب کی تنہائی میں مجھ کو ایسا لگتا ہے کبھی
میں ہوں روح زندگی گو پیکر فانی میں ہوں

جگمگاتی محفل افلاک میرا عکس ذات
لو میں ہوں انجم کی میں سورج کی تابانی میں ہوں

صبحگاہاں دشت و گلشن میں نسیم نرم موج
بیچ دریا کے بھنور ہوں اور جولانی میں ہوں

شمع بزم دلبراں ہے میری دل سوزی کی ضو
میں دل عاشق کے خوابوں کی گل افشانی میں ہوں

لوگ کیوں اس شہر کے اتنے پریشاں حال ہیں
میں کہ خوش دل تھا سدا کا اس پریشانی میں ہوں

میں کہ ہوں اک خوش فہم سادہ لوح طفل پیر سال
اور پھر ضدی بھی ہوں خوش اپنی نادانی میں ہوں

کیا خبر میرا سفر ہے اور کتنی دور کا
کاغذی اک ناؤ ہوں اور تیز رو پانی میں ہوں

حسن کل کا آرزو مند اس تنک جانی میں ہوں
میرے قد سے جو بہت اونچا ہے اس پانی میں ہوں