بے کیف مسرت بھی مصیبت سی لگے ہے
اے دوست مجھے غم کی ضرورت سی لگے ہے
روداد محبت کی کسی کو نہ سناؤ
کچھ لوگ ہیں جن کو یہ شکایت سی لگے ہے
دم توڑتی قدروں کو بچانے کی اچھل کود
فطرت کے اصولوں سے بغاوت سی لگے ہے
دنیائے تماشا تو بدلتی ہے کئی رنگ
گہہ خواب لگے گاہ حقیقت سی لگے ہے
احساس کا دھوکا ہے یہ جذبات کا جادو
اپنوں کی عداوت بھی محبت سی لگے ہے
بے ربط خیالوں کے شگوفوں کی لطافت
مجبور غریبوں کی ذہانت سی لگے ہے
طالبؔ کو شرافت پہ بڑا ناز تھا لیکن
اب اس کی شرافت بھی حماقت سی لگے ہے
غزل
بے کیف مسرت بھی مصیبت سی لگے ہے
طالب چکوالی