EN हिंदी
بے انتہا ہونا ہے تو اس خاک کے ہو جاؤ | شیح شیری
be-intiha hona hai to is KHak ke ho jao

غزل

بے انتہا ہونا ہے تو اس خاک کے ہو جاؤ

شہپر رسول

;

بے انتہا ہونا ہے تو اس خاک کے ہو جاؤ
امکاں کی مسافت کرو افلاک کے ہو جاؤ

سب قصوں کو چھوڑو دل صدچاک کے ہو جاؤ
اس دور جنوں خیز میں ادراک کے ہو جاؤ

خوشیوں سے کہاں ربط ہے ہم کو بھی تمہیں بھی
آ جاؤ اسی لمحۂ نمناک کے ہو جاؤ

اس باغ میں شمشیر ہوا سے نہ بچوگے
خوش رنگ ہو جاؤ کسی پوشاک کے ہو جاؤ

بے ذائقہ ہونے سے یہی ذائقہ اچھا
اشجار سے اترو خس و خاشاک کے ہو جاؤ

سر پوشی کا فن ہاتھوں کو سکھلاؤ وگرنہ
بے آنکھ کے بے کان کے بے ناک کے ہو جاؤ

شہپرؔ کی طرح خاک سے اڑتے ہی پھروگے
بننا ہے تو بس جاؤ کسی چاک کے ہو جاؤ