بے انتہا ہونا ہے تو اس خاک کے ہو جاؤ
امکاں کی مسافت کرو افلاک کے ہو جاؤ
سب قصوں کو چھوڑو دل صدچاک کے ہو جاؤ
اس دور جنوں خیز میں ادراک کے ہو جاؤ
خوشیوں سے کہاں ربط ہے ہم کو بھی تمہیں بھی
آ جاؤ اسی لمحۂ نمناک کے ہو جاؤ
اس باغ میں شمشیر ہوا سے نہ بچوگے
خوش رنگ ہو جاؤ کسی پوشاک کے ہو جاؤ
بے ذائقہ ہونے سے یہی ذائقہ اچھا
اشجار سے اترو خس و خاشاک کے ہو جاؤ
سر پوشی کا فن ہاتھوں کو سکھلاؤ وگرنہ
بے آنکھ کے بے کان کے بے ناک کے ہو جاؤ
شہپرؔ کی طرح خاک سے اڑتے ہی پھروگے
بننا ہے تو بس جاؤ کسی چاک کے ہو جاؤ
غزل
بے انتہا ہونا ہے تو اس خاک کے ہو جاؤ
شہپر رسول