EN हिंदी
بے حسی پر مری وہ خوش تھا کہ پتھر ہی تو ہے | شیح شیری
be-hisi par meri wo KHush tha ki patthar hi to hai

غزل

بے حسی پر مری وہ خوش تھا کہ پتھر ہی تو ہے

زیب غوری

;

بے حسی پر مری وہ خوش تھا کہ پتھر ہی تو ہے
میں بھی چپ تھا کہ چلو سینے میں خنجر ہی تو ہے

دھو کے تو میرا لہو اپنے ہنر کو نہ چھپا
کہ یہ سرخی تری شمشیر کا جوہر ہی تو ہے

راہ نکلی تو کوئی توڑ کے چٹانوں کو
سامنے تیرہ و تاریک سمندر ہی تو ہے

ساتھ ہوں میں بھی کہ دل کی یہی مرضی ہے مگر
دشت بھی بے در و دیوار کا اک گھر ہی تو ہے

تھک کے خوابوں کی گزر گاہ سے اٹھ آیا میں زیبؔ
کون دیکھے وہی دیکھا ہوا منظر ہی تو ہے