بے حسی پر مری وہ خوش تھا کہ پتھر ہی تو ہے
میں بھی چپ تھا کہ چلو سینے میں خنجر ہی تو ہے
دھو کے تو میرا لہو اپنے ہنر کو نہ چھپا
کہ یہ سرخی تری شمشیر کا جوہر ہی تو ہے
راہ نکلی تو کوئی توڑ کے چٹانوں کو
سامنے تیرہ و تاریک سمندر ہی تو ہے
ساتھ ہوں میں بھی کہ دل کی یہی مرضی ہے مگر
دشت بھی بے در و دیوار کا اک گھر ہی تو ہے
تھک کے خوابوں کی گزر گاہ سے اٹھ آیا میں زیبؔ
کون دیکھے وہی دیکھا ہوا منظر ہی تو ہے
غزل
بے حسی پر مری وہ خوش تھا کہ پتھر ہی تو ہے
زیب غوری