بے حس و کج فہم و لا پروا کہے
کل مورخ جانے ہم کو کیا کہے
اس طرح رہتے ہیں اس گھر کے مکیں
جس طرح بہرا سنے گونگا کہے
راز ہائے ضبط غم کیا چھپ سکیں
ہونٹ جب خاموش ہوں چہرہ کہے
اس لیے ہر شخص کو دیکھا کیا
کاش کوئی تو مجھے اپنا کہے
ہے تکلم آئینہ احساس کا
جس کی جیسی سوچ ہو ویسا کہے
پڑھ چکے دریا قصیدہ ابر کا
کیا زبان خشک سے صحرا کہے
بد گمانی صرف میری ذات سے
میں تو وہ کہتا ہوں جو دنیا کہے
غزل
بے حس و کج فہم و لا پروا کہے
مرتضیٰ برلاس