بے حفاظت ہی مرا گنج معانی رہ گیا
ریت پر لکھ کر میں خود اپنی کہانی رہ گیا
چل دیے سب دوست مجھ کو ڈوبتا ہی چھوڑ کر
غم بٹانے کے لیے دریا کا پانی رہ گیا
جب کبھی کھولی ہے میں نے بیتے لمحوں کی کتاب
دیر تک پڑھتا میں تحریریں پرانی رہ گیا
جھڑ گئے پتے مرے جتنے مری شاخوں پہ تھے
بن کے اپنی ایک دھندلی سی نشانی رہ گیا
جم گیا ہے برف کی صورت مرا سارا بدن
دور مجھ سے دور سورج آنجہانی رہ گیا
لفظ تھک کر سو گئے کاغذ کے پہلو میں مگر
جاگتا انجم مرا حسن معانی رہ گیا
غزل
بے حفاظت ہی مرا گنج معانی رہ گیا
انجم نیازی