بے حد غم ہیں جن میں اول عمر گزر جانے کا غم
ہر خواہش کا دھیرے دھیرے دل سے اتر جانے کا غم
ہر تفصیل میں جانے والا ذہن سوال کی زد پر ہے
ہر تشریح کے پیچھے ہے انجام سے ڈر جانے کا غم
جانے کب کس پر کھل جائے شہر فنا کا دروازہ
جانے کب کس کو آ گھیرے اپنے مر جانے کا غم
یہ جو بھیڑ ہے بے حالوں کی دوڑ ہے چند نوالوں کی
نان و نمک کا بوجھ لیے جلدی سے گھر جانے کا غم
دریا پار اترنے والے یہ بھی جان نہیں پائے
کسے کنارے پر لے ڈوبا پار اتر جانے کا غم
عزمؔ اداسی کا یہ صحرا یوں قدموں سے لپٹا ہے
جلنے والوں کو مل جائے جیسے ٹھہر جانے کا غم

غزل
بے حد غم ہیں جن میں اول عمر گزر جانے کا غم
عزم بہزاد