بے حد بے چینی ہے لیکن مقصد ظاہر کچھ بھی نہیں
پانا کھونا ہنسنا رونا کیا ہے آخر کچھ بھی نہیں
اپنی اپنی قسمت سب کی اپنا اپنا حصہ ہے
جسم کی خاطر لاکھوں ساماں روح کی خاطر کچھ بھی نہیں
اس کی بازی اس کے مہرے اس کی چالیں اس کی جیت
اس کے آگے سارے قادر ماہر شاطر کچھ بھی نہیں
اس کا ہونا یا نا ہونا خود میں اجاگر ہوتا ہے
گر وہ ہے تو بھیتر ہی ہے ورنہ بظاہر کچھ بھی نہیں
دنیا سے جو پایا اس نے دنیا ہی کو سونپ دیا
غزلیں نظمیں دنیا کی ہیں کیا ہے شاعر کچھ بھی نہیں

غزل
بے حد بے چینی ہے لیکن مقصد ظاہر کچھ بھی نہیں
دپتی مشرا