EN हिंदी
بیگانہ ادائی ہے ستم جور و ستم میں | شیح شیری
be-gana-adai hai sitam jaur-o-sitam mein

غزل

بیگانہ ادائی ہے ستم جور و ستم میں

غلام مولیٰ قلق

;

بیگانہ ادائی ہے ستم جور و ستم میں
ہم چھپنے نہ پائے کہ چھپا آپ وہ ہم میں

کچھ علم و خرد پر نہیں تقدیر کی مقدار
اندازۂ پیماں نہ زیادہ میں نہ کم میں

ہے طرز محبت ہی دل آشوب وگرنہ
کچھ بات عداوت کی نہ تم میں ہے نہ ہم میں

ہر قافلۂ درد رسیدہ کی ہے منزل
کیا جانیے آرام ہے کیا ملک عدم میں

یا رب ہو برا اس ہوس دل کا نہیں چین
افلاس بھی کھویا طلب جاہ و حشم میں

بے حس ہوس وصل میں ایسے تو ہوئے ہیں
لذت ہے اذیت میں حلاوت ہے نہ سم میں

افسانۂ مے خانہ ہے واعظ کی زباں پر
اندازۂ پیمانہ ہے قندیل حرم میں

مجھ کو ہی نہیں بے خود و بے ہوش کیا کچھ
دیوانے بنے آپ بھی تشویش ستم میں

اس زہد لباسی کے قلقؔ تیرے ہیں قائل
کس ڈھنگ سے لایا پسر شیخ کو دم میں