بے برگ و بار راہ میں سوکھے درخت تھے
منزل تہہ قدم ہوئی ہم تیز بخت تھے
حملے چہار سمت سے ہم پر ہوئے مگر
اندر سے وار جتنے ہوئے زیادہ سخت تھے
تھے پیڑ پر تو مجھ کو بہت خوش نما لگے
توڑے تو جتنے پھل تھے کسیلے کرخت تھے
سوئے تو یاد قوس قزح میں سمٹ گئی
جاگے تو جتنے رنگ تھے وہ لخت لخت تھے
سر تو چھپائیں کوئی کرائے کی چھت ملے
یوں اس قدم کی زد میں کبھی تاج و تخت تھے
غزل
بے برگ و بار راہ میں سوکھے درخت تھے
ظہیر صدیقی