بزم میں وہ بیٹھتا ہے جب بھی آگے سامنے
میں لرز اٹھتا ہوں اس کی ہر ادا کے سامنے
تجھ کو ہر دم مانگتا ہوں جاگتا ہوں رات بھر
اور کیسے ہاتھ پھیلاؤں خدا کے سامنے
منحرف ہوتا گیا ہر شخص اپنی راہ سے
کوئی ٹھہرا ہی نہیں اس کی صدا کے سامنے
مجھ پہ ہی الزام رکھ کر ہر طرف رسوا کیا
کوئی چارہ ہی نہیں تھا بے وفا کے سامنے
تیز آندھی تھی اڑا کر لے گئی مجھ کو کہاں
ایک تنکا تھا کہاں رکتا ہوا کے سامنے
غزل
بزم میں وہ بیٹھتا ہے جب بھی آگے سامنے
عبدالمنان صمدی