EN हिंदी
بزم میں وہ بیٹھتا ہے جب بھی آگے سامنے | شیح شیری
bazm mein wo baiThta hai jab bhi aage samne

غزل

بزم میں وہ بیٹھتا ہے جب بھی آگے سامنے

عبدالمنان صمدی

;

بزم میں وہ بیٹھتا ہے جب بھی آگے سامنے
میں لرز اٹھتا ہوں اس کی ہر ادا کے سامنے

تجھ کو ہر دم مانگتا ہوں جاگتا ہوں رات بھر
اور کیسے ہاتھ پھیلاؤں خدا کے سامنے

منحرف ہوتا گیا ہر شخص اپنی راہ سے
کوئی ٹھہرا ہی نہیں اس کی صدا کے سامنے

مجھ پہ ہی الزام رکھ کر ہر طرف رسوا کیا
کوئی چارہ ہی نہیں تھا بے وفا کے سامنے

تیز آندھی تھی اڑا کر لے گئی مجھ کو کہاں
ایک تنکا تھا کہاں رکتا ہوا کے سامنے