EN हिंदी
بزم تنہائی میں عکس شعلہ پیکر تھا کوئی | شیح شیری
bazm-e-tanhai mein aks-e-shoala-paikar tha koi

غزل

بزم تنہائی میں عکس شعلہ پیکر تھا کوئی

احترام اسلام

;

بزم تنہائی میں عکس شعلہ پیکر تھا کوئی
یا ہمارے سامنے یادوں کا لشکر تھا کوئی

قربتوں کے گھاٹ پر سوکھی ندی ثابت ہوا
فاصلوں کے دشت میں گہرا سمندر تھا کوئی

اس کی ساری التجائیں حکم ٹھہرائی گئیں
جس گھڑی دیکھا گیا جامے سے باہر تھا کوئی

دیوتا ہے اب وہی مندر کے آسن پر جما
ٹھوکریں کھاتا ہوا رستے کا پتھر تھا کوئی

اس کی خواہش تھی کہ سطح آب پر چل کر دکھائے
کیا مقدر تھا کہ دریا کا مقدر تھا کوئی

کرب اپنے بونے‌ پن کا جھیلتا ہوں آج تک
سوچ ابھری تھی بجھی میرے برابر تھا کوئی

سامنے اس کے اگر سورج نہیں تھا احترامؔ
پانی پانی آخرش کیوں شعلہ پیکر تھا کوئی