بزم جاں پھر نگۂ توبہ شکن مانگے ہے
لمس شعلے کا تو خوشبو کا بدن مانگے ہے
قد و گیسو کی شریعت کا وہ منکر بھی نہیں
اور پھر اپنے لیے دار و رسن مانگے ہے
رقص کاکل کے تصور کی یہ شیریں ساعت
شب کے پھولوں سے مہکتا ہوا بن مانگے ہے
ٹوٹتے ہیں تو بکھر جاتے ہیں مٹی کے حروف
زندگی جن سے چراغوں کا چلن مانگے ہے
جس کو گھیرے ہوئے رہتے ہیں ہواؤں کے حصار
شمع جاں مجھ سے وہی دل کی لگن مانگے ہے
مسکراہٹ وہ کہ پھولوں پہ شکر برساوے
ناز اس ریشمی ماتھے پہ شکن مانگے ہے
پھول افسانہ بھی افسوں بھی ہے لیکن تنویرؔ
چشم خوں بستہ نیا طرز سخن مانگے ہے

غزل
بزم جاں پھر نگۂ توبہ شکن مانگے ہے
تنویر احمد علوی