بزم دشمن میں بلاتے ہو یہ کیا کرتے ہو
اور پھر آنکھ چراتے ہو یہ کیا کرتے ہو
بعد میرے کوئی مجھ سا نہ ملے گا تم کو
خاک میں کس کو ملاتے ہو یہ کیا کرتے ہو
ہم تو دیتے نہیں کچھ یہ بھی زبردستی ہے
چھین کر دل لیے جاتے ہو یہ کیا کرتے ہو
کر چکے بس مجھے پامال عدو کے آگے
کیوں مری خاک اڑاتے ہو یہ کیا کرتے ہو
چھینٹے پانی کے نہ دو نیند بھری آنکھوں پر
سوتے فتنے کو جگاتے ہو یہ کیا کرتے ہو
ہو نہ جائے کہیں دامن کا چھڑانا مشکل
مجھ کو دیوانہ بناتے ہو یہ کیا کرتے ہو
محتسب ایک بلانوش ہے اے پیر مغاں
چاٹ پر کس کو لگاتے ہو یہ کیا کرتے ہو
کام کیا داغ سویدا کا ہمارے دل پر
نقش الفت کو مٹاتے ہو یہ کیا کرتے ہو
پھر اسی منہ پہ نزاکت کا کرو گے دعویٰ
غیر کے ناز اٹھاتے ہو یہ کیا کرتے ہو
اس ستم کیش کے چکموں میں نہ آنا بیخودؔ
حال دل کس کو سناتے ہو یہ کیا کرتے ہو
غزل
بزم دشمن میں بلاتے ہو یہ کیا کرتے ہو
بیخود دہلوی