EN हिंदी
بیان حال مفصل نہیں ہوا اب تک | شیح شیری
bayan-e-haal mufassal nahin hua ab tak

غزل

بیان حال مفصل نہیں ہوا اب تک

جہانگیر نایاب

;

بیان حال مفصل نہیں ہوا اب تک
جو مسئلہ تھا وہی حل نہیں ہوا اب تک

نہیں رہا کبھی میں اس کی دسترس سے دور
مری نظر سے وہ اوجھل نہیں ہوا اب تک

بچھڑ کے تجھ سے یہ لگتا تھا ٹوٹ جاؤں گا
خدا کا شکر ہے پاگل نہیں ہوا اب تک

جلائے رکھا ہے میں نے بھی اک چراغ امید
تمہارا در بھی مقفل نہیں ہوا اب تک

مجھے تراش رہا ہے یہ کون برسوں سے
مرا وجود مکمل نہیں ہوا اب تک

دراز دست تمنا نہیں کیا میں نے
کرم تمہارا مسلسل نہیں ہوا اب تک

برس کچھ اور مری جان ٹوٹ کے مجھ پر
یہ خطہ جسم کا جل تھل نہیں ہوا اب تک

نہ آیا باز وہ نایابؔ اپنی فطرت سے
وفا کا شہر بھی جنگل نہیں ہوا اب تک