EN हिंदी
بطور یادگار زہد مے خانے میں رکھ دینا | شیح شیری
bataur-e-yaadgar-e-zohd mai-KHane mein rakh dena

غزل

بطور یادگار زہد مے خانے میں رکھ دینا

نوح ناروی

;

بطور یادگار زہد مے خانے میں رکھ دینا
مری ٹوٹی ہوئی توبہ کو پیمانے میں رکھ دینا

کہا تھا اے دل نافہم و ناداں تجھ سے یہ کس نے
خدا خانے کی حرمت کو صنم خانے میں رکھ دینا

پسند آئے نہ آئے منحصر ہے یہ طبیعت پر
کسی کے سامنے دل ہم کو نذرانے میں رکھ دینا

دوبارا پھر کسی دن میرے کام آئے گی اے ساقی
جو مے پینے سے بچ جائے وہ پیمانے میں رکھ دینا

کہیں آئیں کہیں جائیں کہیں اٹھیں کہیں بیٹھیں
قدم ہر پھر کر اپنا ہم کو بت خانے میں رکھ دینا

چراغ انجمن اپنی ضیا پھیلانے والا ہے
اٹھا کر شعلۂ الفت کو پروانے میں رکھ دینا

کہاں ہم ڈھونڈتے تجھ کو پھریں گے اس گھڑی ساقی
صبوحی کے لئے تھوڑی سی پیمانے میں رکھ دینا

نظر آتے ہیں کچھ انگور مجھ کو اے مرے ساقی
لہو توبہ کا ان کے ایک اک دانے میں رکھ دینا

خطائے عشق پر کیوں نوحؔ اپنی جان کھو بیٹھے
رقم اتنی بڑی اور اس کو جرمانے میں رکھ دینا