بتائیں کیا تجھ کو چشم پر نم ہوا ہے کیا خوں آرزو کا
بنا گل داغ یاس و سرت جو دل میں قطرہ بچا لہو کا
دبے جو گھٹ گھٹ کے دل میں ارماں وہ برق بن کر فلک پہ تڑپے
جو ولولہ جی میں رہ گیا تھا وہ بلبلہ اب ہے آب جو کا
عبث ہے تو چارہ گر پریشاں نہ تجھ سے کچھ بن پڑے گا درماں
کہ ہو تو تار نفس سے ساماں جراحت دل کے ہو رفو کا
کھلا لب گور سے یہ عقدہ کہ خواب تھی سب نمود ہستی
وقوف نا محرمیٔ منزل کمال ہے میری جستجو کا
نہ تجھ کو مست ہوائے گلشن خزاں میں اے عندلیب دیکھا
نہیں تو شیدائی باغ و گل کا مگر فدائی ہے رنگ و بو کا
اسے نہ پھر کچھ دیا دکھائی نظر پڑا وہ جمال جس کو
کھلا حقیقت کا راز جس پر نہ اس کو یارا تھا گفتگو کا
ہے نفع ذات اور نسخ ہستی وصال جاناں کی شرط اول
بھرا مناظر سے ہے جہاں سب جو صرف درشن کا تو ہے بھوکا
طلسم دیر و حرم ہے تجھ پر ہنوز دلی ہے دور ناداں
وہاں ترا خاک دل لگے گا وہ ہے سراسر مکان ہو کا
خبر کسے صبح و شام کی ہے تعینات اور قیود کیسے
نماز کس کی وہاں کسی کو خیال تک بھی نہیں وضو کا
نہیں محیط رسوم و ملت ہے بے نشاں منزل حقیقت
وہاں نہ سمرن کی ہتکڑی ہے نہ طوق زنار ہے گلو کا
ہیں غرق بحر مے محبت وہاں ہے کیفیؔ یہ سب کی حالت
ہے دخل ساقی کی بزم میں کیا صراحی و ساغر و سبو کا
غزل
بتائیں کیا تجھ کو چشم پر نم ہوا ہے کیا خوں آرزو کا
دتا تریہ کیفی