EN हिंदी
بستیوں میں اک صدائے بے صدا رہ جائے گی | شیح شیری
bastiyon mein ek sada-e-be-sada rah jaegi

غزل

بستیوں میں اک صدائے بے صدا رہ جائے گی

امجد اسلام امجد

;

بستیوں میں اک صدائے بے صدا رہ جائے گی
بام و در پہ نقش تحریر ہوا رہ جائے گی

آنسوؤں کا رزق ہوں گی بے نتیجہ چاہتیں
خشک ہونٹوں پر لرزتی اک دعا رہ جائے گی

رو بہ رو منظر نہ ہوں تو آئینے کس کام کے
ہم نہیں ہوں گے تو دنیا گرد پا رہ جائے گی

خواب کے نشے میں جھکتی جائے گی چشم قمر
رات کی آنکھوں میں پھیلی التجا رہ جائے گی

بے ثمر پیڑوں کو چومیں گے صبا کے سبز لب
دیکھ لینا یہ خزاں بے دست و پا رہ جائے گی