EN हिंदी
بستیاں لٹتی ہیں خوابوں کے نگر جلتے ہیں | شیح شیری
bastiyan luTti hain KHwabon ke nagar jalte hain

غزل

بستیاں لٹتی ہیں خوابوں کے نگر جلتے ہیں

ابو محمد سحر

;

بستیاں لٹتی ہیں خوابوں کے نگر جلتے ہیں
ہم وہاں ہیں کہ جہاں شام و سحر جلتے ہیں

دل کے ایوان میں افسردہ چراغوں کا دھواں
دور کچھ دور وہ یادوں کے کھنڈر جلتے ہیں

پھر کسی منزل جاں سوز کی جانب ہیں رواں
چوب صحرا کی طرح اہل سفر جلتے ہیں

یوں تو پر امن ہے اب شہر ستم گر لیکن
کچھ مکاں خود ہی سر راہ گزر جلتے ہیں

ہے بظاہر کوئی شعلہ نہ چمک اور شرر
ہم کسی غم میں بہ انداز دگر جلتے ہیں

آتش تلخیٔ حالات میں کیا کچھ نہ جلا
اب گلہ کیا ہے جو احساس کے پر جلتے ہیں

گو ہو برفاب بھی تسکین ہے دشوار سحرؔ
اپنی ہی آگ میں ارباب ہنر جلتے ہیں