بستیاں ڈھونڈھ رہی ہیں انہیں ویرانوں میں
وحشتیں بڑھ گئیں حد سے ترے دیوانوں میں
نگۂ ناز نہ دیوانوں نہ فرزانوں میں
جان کار ایک وہی ہے مگر انجانوں میں
بزم مے بے خود و بے تاب نہ کیوں ہو ساقی
موج بادہ ہے کہ درد اٹھتا ہے پیمانوں میں
میں تو میں چونک اٹھی ہے یہ فضائے خاموش
یہ صدا کب کی سنی آتی ہے پھر کانوں میں
سیر کر اجڑے دلوں کی جو طبیعت ہے اداس
جی بہل جاتے ہیں اکثر انہیں ویرانوں میں
وسعتیں بھی ہیں نہاں تنگئ دل میں غافل
جی بہل جاتے ہیں اکثر انہیں میدانوں میں
جان ایمان جنوں سلسلہ جنبان جنوں
کچھ کشش ہائے نہاں جذب ہیں ویرانوں میں
خندۂ صبح ازل تیرگیٔ شام ابد
دونوں عالم ہیں چھلکتے ہوئے پیمانوں میں
دیکھ جب عالم ہو کو تو نیا عالم ہے
بستیاں بھی نظر آنے لگیں ویرانوں میں
جس جگہ بیٹھ گئے آگ لگا کر اٹھے
گرمیاں ہیں کچھ ابھی سوختہ سامانوں میں
وحشتیں بھی نظر آتی ہیں سر پردۂ ناز
دامنوں میں ہے یہ عالم نہ گریبانوں میں
ایک رنگینیٔ ظاہر ہے گلستاں میں اگر
ایک شادابیٔ پنہاں ہے بیابانوں میں
جوہر غنچہ و گل میں ہے اک انداز جنوں
کچھ بیاباں نظر آئے ہیں گریبانوں میں
اب وہ رنگ چمن و خندۂ گل بھی نہ رہے
اب وہ آثار جنوں بھی نہیں دیوانوں میں
اب وہ ساقی کی بھی آنکھیں نہ رہیں رندوں میں
اب وہ ساغر بھی چھلکتے نہیں مے خانوں میں
اب وہ اک سوز نہانی بھی دلوں میں نہ رہا
اب وہ جلوے بھی نہیں عشق کے کاشانوں میں
اب نہ وہ رات جب امیدیں بھی کچھ تھیں تجھ سے
اب نہ وہ بات غم ہجر کے افسانوں میں
اب ترا کام ہے بس اہل وفا کا پانا
اب ترا نام ہے بس عشق کے غم خانوں میں
تا بہ کے وعدۂ موہوم کی تفصیل فراقؔ
شب فرقت کہیں کٹتی ہے ان افسانوں میں
غزل
بستیاں ڈھونڈھ رہی ہیں انہیں ویرانوں میں
فراق گورکھپوری