EN हिंदी
بستی سے دور جا کے کوئی رو رہا ہے کیوں | شیح شیری
basti se dur ja ke koi ro raha hai kyun

غزل

بستی سے دور جا کے کوئی رو رہا ہے کیوں

فاروق نازکی

;

بستی سے دور جا کے کوئی رو رہا ہے کیوں
اور پوچھتا ہے شہر ترا سو رہا ہے کیوں

رسوائیوں کا ڈر ہے نہ پرشش کا خوف ہے
دامن سے اپنے داغ وفا دھو رہا ہے کیوں

کیا لذت گناہ سے دل آشنا نہیں
شرمندہ میرے حال پہ تو ہو رہا ہے کیوں

وہ ان کی دل فریب دل آرائیاں کہاں
ماضی کے خوف زار میں اب کھو رہا ہے کیوں

فاروقؔ جی کا کب کوئی پرسان حال تھا
تنہائیوں کے غار میں دل رو رہا ہے کیوں