بستی سے دور جا کے کوئی رو رہا ہے کیوں
اور پوچھتا ہے شہر ترا سو رہا ہے کیوں
رسوائیوں کا ڈر ہے نہ پرشش کا خوف ہے
دامن سے اپنے داغ وفا دھو رہا ہے کیوں
کیا لذت گناہ سے دل آشنا نہیں
شرمندہ میرے حال پہ تو ہو رہا ہے کیوں
وہ ان کی دل فریب دل آرائیاں کہاں
ماضی کے خوف زار میں اب کھو رہا ہے کیوں
فاروقؔ جی کا کب کوئی پرسان حال تھا
تنہائیوں کے غار میں دل رو رہا ہے کیوں
غزل
بستی سے دور جا کے کوئی رو رہا ہے کیوں
فاروق نازکی