EN हिंदी
بستی میں کچھ لوگ نرالے اب بھی ہیں | شیح شیری
basti mein kuchh log nirale ab bhi hain

غزل

بستی میں کچھ لوگ نرالے اب بھی ہیں

زہرا نگاہ

;

بستی میں کچھ لوگ نرالے اب بھی ہیں
دیکھو خالی دامن والے اب بھی ہیں

دیکھو وہ بھی ہیں جو سب کہہ سکتے تھے
دیکھو ان کے منہ پر تالے اب بھی ہیں

دیکھو ان آنکھوں کو جنہوں نے سب دیکھا
دیکھو ان پر خوف کے جالے اب بھی ہیں

دیکھو اب بھی جنس وفا نایاب نہیں
اپنی جان پہ کھیلنے والے اب بھی ہیں

تارے ماند ہوئے پر ذرے روشن ہیں
مٹی میں آباد اجالے اب بھی ہیں