بستی میں کچھ لوگ نرالے اب بھی ہیں
دیکھو خالی دامن والے اب بھی ہیں
دیکھو وہ بھی ہیں جو سب کہہ سکتے تھے
دیکھو ان کے منہ پر تالے اب بھی ہیں
دیکھو ان آنکھوں کو جنہوں نے سب دیکھا
دیکھو ان پر خوف کے جالے اب بھی ہیں
دیکھو اب بھی جنس وفا نایاب نہیں
اپنی جان پہ کھیلنے والے اب بھی ہیں
تارے ماند ہوئے پر ذرے روشن ہیں
مٹی میں آباد اجالے اب بھی ہیں
غزل
بستی میں کچھ لوگ نرالے اب بھی ہیں
زہرا نگاہ