بستی بستی جنگل جنگل گھوما میں
لیکن اپنے گھر میں آ کر سویا میں
جب بھی تھکن محسوس ہوئی ہے رستے کی
بوڑھے برگد کے سائے میں بیٹھا میں
کیا دیکھا تھا آخر میری آنکھوں نے
چلتے چلتے رستے میں کیوں ٹھہرا میں
جب بھی جھک کر ملتا ہوں میں لوگوں سے
ہو جاتا ہوں اپنے قد سے اونچا میں
ٹھنڈے موسم سے بھی میں جل جاتا ہوں
سوکھی بارش میں بھی اکثر بھیگا میں
جب جب بچے بوڑھی باتیں کرتے ہیں
یوں لگتا ہے دیکھ رہا ہوں سپنا میں
سارے منظر سونے سونے لگتے ہیں
کیسی بستی میں تابشؔ آ پہنچا میں
غزل
بستی بستی جنگل جنگل گھوما میں
ظفر تابش