EN हिंदी
بصیرتوں کا نظر احترام کرتی ہے | شیح شیری
basiraton ka nazar ehtiram karti hai

غزل

بصیرتوں کا نظر احترام کرتی ہے

ندیم فاضلی

;

بصیرتوں کا نظر احترام کرتی ہے
سماعتوں سے خموشی کلام کرتی ہے

خزاں کا راز جو آنکھوں پہ منکشف ہو جائے
تو زرد رت بھی بہاروں کا کام کرتی ہے

کہاں کا ظرف کہاں کا وقار یہ دنیا
نگاہ جیب پہ رکھ کر سلام کرتی ہے

ضرورتیں در شاہی پہ لے کے جاتی ہیں
مری انا مجھے اپنا غلام کرتی ہے

حصار سود و زیاں سے نکال دے یارب
یہ زندگی مرا جینا حرام کرتی ہے

بلند و پست سے پرواز ماورا ہے مری
یہ کائنات مجھے زیر دام کرتی ہے

خدا کا شکر کہ میں خود سے آشنا ہوں ندیمؔ
مری نگاہ مرا احترام کرتی ہے