بشر کو مشعل ایماں سے آگہی نہ ملی
دھواں وہ تھا کہ نگاہوں کو روشنی نہ ملی
خوشی کی معرفت اور غم کی آگہی نہ ملی
جسے جہاں میں محبت کی زندگی نہ ملی
جگر نہ تھا کہ کوئی پھانس سی چبھی نہ ملی
جہاں کی خاک اڑائی کہیں خوشی نہ ملی
یہ کہہ کے آخر شب شمع ہو گئی خاموش
کسی کی زندگی لینے سے زندگی نہ ملی
لبوں پہ پھیل گئی ایک موج غم اکثر
بچھڑ کے تجھ سے ہنسی کی طرح ہنسی نہ ملی
طواف شمع پتنگوں کا جل کے بھی ہے وہی
جگر کی آگ سے آنکھوں کو روشنی نہ ملی
ثبات پا نہ سکے گا کوئی نظام چمن
فسردہ غنچوں کو جس میں شگفتگی نہ ملی
فلک کے تاروں سے کیا دور ہوگی ظلمت شب
جب اپنے گھر کے چراغوں سے روشنی نہ ملی
ابھی شباب ہے کر لوں خطائیں جی بھر کے
پھر اس مقام پہ عمر رواں ملی نہ ملی
وہ قافلے کہ فلک جن کے پاؤں کا تھا غبار
رہ حیات سے بھٹکے تو گرد بھی نہ ملی
وہ تیرہ بخت حقیقت میں ہے جسے ملاؔ
کسی نگاہ کے سائے کی چاندنی نہ ملی
غزل
بشر کو مشعل ایماں سے آگہی نہ ملی
آنند نرائن ملا