EN हिंदी
بشر کی ذات کو غم سے کہاں مفر ہے میاں | شیح شیری
bashar ki zat ko gham se kahan mafar hai miyan

غزل

بشر کی ذات کو غم سے کہاں مفر ہے میاں

وقار مانوی

;

بشر کی ذات کو غم سے کہاں مفر ہے میاں
ہزار کہئے کوئی غم نہیں مگر ہے میاں

سفر میں زاد سفر ہی تو کام آتا ہے
سفر کو سہل نہ جانو سفر سفر ہے میاں

ملال کیا کریں دستار کے نہ ہونے کا
وبال دوش یہاں تو خود اپنا سر ہے میاں

بہ عافیت گزر آئے تھے ہر تلاطم سے
مگر کنارے پہ اب ڈوبنے کا ڈر ہے میاں

یہ زندگی جو مسائل سے پر ہے آخر تک
اسے بسر بھی تو کرنا بڑا ہنر ہے میاں

جو پونچھے بھی کوئی آنسو تو پونچھے کس کس کے
ہر ایک آنکھ یہاں آنسوؤں سے تر ہے میاں

زمانہ ہو گیا بازئ دل تو ہارے ہوئے
رہی حیات سو اب وہ بھی داؤ پر ہے میاں

ہے اس کا طالب دید آئنہ بھی میں ہی نہیں
وہ پر کشش ہے بہت جاذب نظر ہے میاں

خوشی تو ہستئ نا معتبر نہ دے گی وقارؔ
جو رشتہ غم سے ہے وہ پھر بھی معتبر ہے میاں