بشر کے فیض صحبت سے لیاقت آ ہی جاتی ہے
پری زادوں کو آخر آدمیت آ ہی جاتی ہے
جوانی سے دیا وہ ہوتے ہیں غافل ضعیفی میں
نسیم صبح چلتی ہے تو غفلت آ ہی جاتی ہے
کلید قفل مشکل ہوتی ہے داد و دہش آخر
سخی کے ایک دن آڑے سخاوت آ ہی جاتی ہے
رقیب اس شوخ سے جب گرمیاں کرتے ہیں محفل میں
نہیں قابو میں دل رہتا حرارت آ ہی جاتی ہے
ہمیں بھی یاد کر لیتے ہیں وہ بھولے سے صحبت میں
کبھی ہم بے نصیبوں کی بھی نوبت آ ہی جاتی ہے
طبیعت کو نہ کیوں کر غیر کے مضمون سے نفرت ہو
کہ جھوٹی چیز سے اکثر کراہت آ ہی جاتی ہے
بجا کہتے ہیں جو کہتے ہیں یہ خدمت سے عظمت ہے
کہ کام انساں کے اک دن ریاضت آ ہی جاتی ہے
عجب سر گرم کوشش ہو مقدر میں جو ہوتی ہے
تو ہاتھ انساں کے اک روز دولت آ ہی جاتی ہے
تأسف کرتے ہیں وہ دیکھ کر میرا دل ویراں
خرابے پر گزرتے ہیں تو غیرت آ ہی جاتی ہے
دبایا جب رقیبوں کو تو بولے یار کیا کہنا
جو ارباب حیا ہیں ان کو غیرت آ ہی جاتی ہے
حسینوں کو ہی زیبا حسن صورت پر غرور اپنے
ہر اک ارباب دولت کو رعونت آ ہی جاتی ہے
عجب شے ہے خوشی بھی سن کے وصل یار کا مژدہ
مریض ہجر کے چہرے پہ وحشت آ ہی جاتی ہے
چھپانے سے نہیں چھپتا ہے حسن دل کش عالم
کہیں ہو دیکھنے میں اچھی صورت آ ہی جاتی ہے
سکھا دیتا ہے اقبال آدمی کو نیک و بد آخر
یہ دولت ہے وہ شے شان ریاست آ ہی جاتی ہے
توجہ منعموں کی نفع سے خالی نہیں ہوتی
ہوائے گوشۂ دامان دولت آ ہی جاتی ہے
ستم دیدہ جو ہیں وہ ذکر آفت سے بھی ڈرتے ہیں
قلقؔ نام شب فرقت سے دہشت آ ہی جاتی ہے
غزل
بشر کے فیض صحبت سے لیاقت آ ہی جاتی ہے
ارشد علی خان قلق