بسر ہو یوں کہ ہر اک درد حادثہ نہ لگے
گزر بھی جائے کوئی غم تو واقعہ نہ لگے
کبھی نہ پھول سے چہرے پہ گرد یاس جمے
خدا کرے کہ اسے عشق کی ہوا نہ لگے
نظر نہ آئے مجھے حسن کے سوا کچھ بھی
وہ بے وفا بھی اگر ہے تو بے وفا نہ لگے
یہی دعا ہے وہ جب ہو جمال سے آگاہ
لباس ناز بھی پہنے تو دوسرا نہ لگے
وہ مہرباں سا لگے اس کی کچھ کرو تدبیر
خفا بھی ہو تو مری آنکھ کو خفا نہ لگے
ملے جو نور طلب دل بھی یوں منور ہو
مرا حریف بھی شام و سحر برا نہ لگے
کہاں سے لاؤں حسنؔ گفتگو میں وہ انداز
مرا کلام کسی کو بھی بے مزا نہ لگے
غزل
بسر ہو یوں کہ ہر اک درد حادثہ نہ لگے
حسن نعیم