بس تری حد سے تجھے آگے رسائی نہیں دی
میں نے گالی تو کوئی اے مرے بھائی نہیں دی
مجھے ہر فکر سے آزاد سمجھنے والے
میرے ماتھے کی شکن تجھ کو دکھائی نہیں دی
دل میں اک شور اٹھا ہاتھ چھڑانے سے ترے
دیر تک پھر کوئی آواز سنائی نہیں دی
پھول کاڑھے ہیں مرے تلووں پہ وحشت نے مری
تپتے صحرا نے مجھے آبلہ پائی نہیں دی
ایک دوجے سے یوں وابستہ ہوئے ہم دونوں
میں نے چاہا نہیں اس نے بھی رہائی نہیں دی
وصل آیا تھا ترے ہجر کا سودا کرنے
عشق کی ہم نے مگر پہلی کمائی نہیں دی
ہاتھ کیا سوچ کے کھینچا ہے ستم سے اس نے
میں نے زخموں کی تو ذیشانؔ دہائی نہیں دی
غزل
بس تری حد سے تجھے آگے رسائی نہیں دی
ذیشان الٰہی