بس کوئی ایسی کمی سارے سفر میں رہ گئی
جیسے کوئی چیز چلتے وقت گھر میں رہ گئی
کون یہ چلتا ہے میرے ساتھ بے جسم و صدا
چاپ یہ کس کی مری ہر رہ گزر میں رہ گئی
گونجتے رہتے ہیں تنہائی میں بھی دیوار و در
کیا صدا اس نے مجھے دی تھی کہ گھر میں رہ گئی
اور تو موسم گزر کر جا چکا وادی کے پار
بس ذرا سی برف ہر سوکھے شجر میں رہ گئی
رات دریا میں پھر اک شعلہ سا چکراتا رہا
پھر کوئی جلتی ہوئی کشتی بھنور میں رہ گئی
رات بھر ہوتا رہا ہے کن خزانوں کا نزول
موتیوں کی سی جھلک ہر برگ تر میں رہ گئی
لوٹ کر آئے نہ کیوں جاتے ہوئے لمحے عدیمؔ
کیا کمی میری صدائے بے اثر میں رہ گئی
غزل
بس کوئی ایسی کمی سارے سفر میں رہ گئی
عدیم ہاشمی