بس اک جہان تحیر سے آنے والا ہے
وہ اجنبی مجھے اپنا بنانے والا ہے
گلاب سنگ کی صورت دکھانے والا ہے
کہاں کہاں وہ مجھے آزمانے والا ہے
کوئی تو دیکھنے والا ہے میری آنکھوں سے
کوئی تو ہے جو تماشہ دکھانے والا ہے
یہ چاند اور ستارے تو اک بہانہ ہیں
کچھ اور ہے جو یہاں جگمگانے والا ہے
ہر ایک جسم یہاں روح کی علامت ہے
یہ ریگزار بھی نغمہ سنانے والا ہے
بس اک سوال کی تخلیق ہے بشر جیسے
کہاں سے آیا ہے کس اور جانے والا ہے
اسے خبر ہے کہاں روشنی کا ماخذ ہے
وہ تیرگی میں دلوں کو جلانے والا ہے
امیر اس کی امانت اٹھا نہیں سکتا
فقیر اصل میں اس کا خزانے والا ہے
وہ ایک پیاس کا لمحہ جو میرے اندر ہے
کبھی کبھی تو سمندر لٹانے والا ہے
وہ خاکسار کو دیتا ہے پھول حصے میں
وہ سنگ زار میں دریا بہانے والا ہے
بہت عزیز ہے زیر و زبر کا کھیل اسے
بجھا بجھا کے تمنا جگانے والا ہے
وہ ایک گوہر یکتا ہے میرے ساگر میں
وہ ایک اشک کہ آنکھوں میں آنے والا ہے
ثمر کو باندھ کے رکھتا ہے وہ درختوں پر
جو پک گیا اسے نیچے گرانے والا ہے
وہ اپنے آپ ہی گھر لوٹ آئے گا احمدؔ
کسی کو کون ہمیشہ بلانے والا ہے
غزل
بس اک جہان تحیر سے آنے والا ہے
احمد شناس